Facebook

مطالعے کا آکسیجن، جس کے بغیر تحریر کی موت ہے


مطالعے کا آکسیجن، جس کے بغیر تحریر کی موت ہے


واقعہ مشہور ہے۔ نیوٹن (Nuton) سیب کے پیڑ کے نیچے بیٹھا تھا۔ اُس پر ایک تازہ پکا ہوا سیب آگرا۔ اُٹھایا، دیکھا اور دیکھتے ہی چلا گیا۔ کھانے کے لئے ذرا بھی جی نہ للچایا، حالانکہ صبح سے بیٹھے شام ہونے کو آئی تھی، کیوں بھلا؟ اپنے آپ سے سوال جواب کرنے لگا۔ یہ سیب ٹوٹ کر آخر نیچے ہی کیوں گرا؟ اوپر کیوں نہیں چلاگیا؟ وہ اس میں الجھ گیا۔ اس الجھن سے نکلا تو شہرئہ آفاق کشش ثقل کا قانون یعنی Law Of Gravitation وجود میں آگیا۔ یہ واقعہ جس گاﺅں میں رونما ہوا تھا وہاں آج مشہور عام اور مقبول عام کیمبرج یونیورسٹی قائم ہے۔

اسی طرح آکسفورڈ (Oxford) یونیورسٹی کا واقعہ ہے۔ چمن میں لگے درخت تلے ایک طالب علم مطالعے میں مشغول تھا۔ سائنس کے ایک پروفیسر کا وہاں سے گزر ہوا۔ طالب علم مطالعے میں مستغرق تھا۔ 6 گھنٹے بعد جب پروفیسر صاحب دوبارہ وہاں سے گزرے تو اسی طرح اس طالب علم کو مطالعے میں منہمک پایا۔ یہ دیکھ کر پروفیسر کے قدم رُک گئے۔ مطالعے میں مستغرق طالب علم کو اپنی طرف متوجہ کرکے اس سے پوچھا کہ کیا 6 گھنٹوں سے مسلسل مطالعہ ہی کررہے ہو؟ “طالب علم نے جواب دیا: ”جی ہاں!“ روزانہ 6 گھنٹے مطالعہ کرنا میرا معمول ہے۔“ پروفیسر نے دوسرا سوال یہ پوچھا کہ روزانہ سوچتے کتنے گھنٹے ہو؟

 طالب علم خاموش رہا، کیونکہ اسے غور و فکر اور سوچنے کی عادت نہ تھی۔ پروفیسر نے کہا: ”جب 6 گھنٹے مطالعہ کرتے ہو تو کم از کم 2گھنٹے سوچا بھی کرو۔“ چلتے چلتے یہ پروفیسر ان کو کامیابی کا بہت بڑا راز بتاگئے۔ اصل کام غور و فکر کرنے اور مختلف زاویوں سے سوچنے سے ہوتا ہے۔ انسان مطالعے کے ساتھ ساتھ غور و فکر کرتا ہے۔ ہر وقت کچھ نیا سیکھتا رہے۔ مثبت سوچ اور نیک جذبے کے ساتھ محنت کرتا رہے تو کامیابی کے راستے کھلتے ہی چلے جاتے ہیں۔

کہتے ہیں: ”ایک مرتبہ ابوالاعلیٰ مودودی سے کسی نے پوچھا: ”آپ نے تحریر کے میدان میں اپنا کوئی جان نشیں تیار نہیں کیا؟“ سوال سننے کے بعد مودودی نے عجیب جواب دیا: ”ان کا کہنا تھا کہ میرے جتنا کسی نے پڑھا ہی نہیں ہے۔ جب تک انسان پڑھ پڑھ کر اپنا پِتّہ پانی نہ کرے اس وقت تک کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے۔“ اس لیے ہم کہتے ہیں کہ ہر وقت کچھ نہ کچھ پڑھتے اور کچھ نیا سیکھتے رہو۔
یہ بات یاد رکھیں کہ انسان کی زندگی مسلسل سیکھتے رہنے کا نام ہے۔ زندگی کے کسی بھی موڑ پر خود کو مطالعے اور سیکھنے سے اپنے آپ کو مبرا نہیں سمجھنا چاہیے۔ مطالعے اور سیکھنے کے عمل کے رکنے سے زندگی رُک جاتی ہے۔ باشعور زندگی میں کوئی اسٹیج ایسا نہیں آتا جب انسان یہ محسوس کرنے لگے کہ اب مجھے کچھ نیا سیکھنے اور پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔جب کسی انسان کے ذہن و دماغ پر یہ بات سماجائے کہ اب مجھے پڑھنے اور سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے سب کچھ معلوم ہوگیا ہے تو سمجھ لیں اس پر علم و دانش کے دروازے بند ہونے لگے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کسی بھی موقعے پر ہمت نہیں ہارنی چاہیے۔ امیدوں کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔
 اگر محنت، جذبہ اور قسمت کی بات کی جائے تو میں سمجھتا ہوں کامیابی میں ان تینوں کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن پہلے نمبر پر محنت، دوسرے نمبر پر جذبہ اور تیسرے نمبر پر قسمت آتی ہے۔ خوش قسمت وہی ہوتے ہیں جو مثبت سوچوں، نیک جذبوں اور بھرپور محنت کے ساتھ آگے بڑھنے کی جدوجہد کرتے ہیں۔ اس حوالے سے آخری بات یہ ہے کہ مثبت سوچ کے ساتھ مطالعہ کریں، پڑھیں اور سیکھیں۔ منفی سوچ انسان کو تباہ اور گمراہ کردیتی ہے۔ مثبت سوچ، سخت محنت اور نیک جذبے کے ساتھ جو کچھ بھی پڑھیں گے اور سیکھیں گے وہ آپ کی ترقی اور کامیابی کا بیش خیمہ بنے گا۔ آپ کی زندگی پر اس کے اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔ آپ کو نئی آکسیجن فراہم ہو گی۔۔۔۔۔
تحریر۔۔جمیل الرحمٰن بہلوی
مطالعے کا آکسیجن، جس کے بغیر تحریر کی موت ہے  مطالعے کا آکسیجن، جس کے بغیر تحریر کی موت ہے Reviewed by Hamza Ali on November 21, 2018 Rating: 5

No comments:

Powered by Blogger.