🎼🎲🎼🎲🎼🎲🎼🎲🎼🎲🎼
۔
*تھیٹر کی کہانی*
ہمیں آپ کی جانب سے چند خواتین درکار ہیں ۔
ہم آپ کو اداکاری کے لیے تھیڑ میں بلانا چاھتے ہیں ۔
انگریز نے خاصی پلاننگ کے بعد آخر برصغیر کی چند مسلم خواتین سے بات کی ۔
توقع کے عین مطابق صاف انکار برامد ہوا ۔
وہ گئے بازارِحسن ! یہاں امید تھی ۔
ہمیں کچھ خواتین چاھیں ۔
فقط
ادا کاری کرنا ہوگی ۔
بازارِحسن کی خواتین کانوں کو ہاتھ لگانے لگیں ۔
’’جو کچھ کرتے ہیں ، مجبورا کرتے ہیں ، اور گھروں کو بند کرکے کرکے کرتے ہیں ۔
کھلے عام ’’مردوں ‘‘ کے سامنے ایکٹنگ ؟؟ اداکاری ؟؟؟
بخدا نہیں !
یہاں سے انکار ہوا !
انگریز بہادر نے ہمت نہ ہاری ۔ گیا ہندو خواتین کے پاس !
کام کی نوعیت بتلائی گئی ۔
فقط اداکاری کرنی ہے ۔
وہ لگیں رام رام کرنے !
مرد کے سامنے عورت ذات یوں کھلے عام آئے ، کھلے عام ہنسے کھیلے بولے ؟
رام رام ! توبہ توبہ ۔
انگریز نے ہمت نہ ہاری !
ہیجڑے ابھی باقی تھے ۔
ان کے سامنے درخواست پیش کی ۔
انہوں نے بھی یکسر انکار کردیا ۔
انگریز اس کام کے اس قدر پیچھے کیوں پڑا تھا ۔
یقینا وہ ایک خطرناک مقصد اپنے دماغ میں رکھتا تھا ۔
اس نے اپنے ہی چند مرد پکڑے ۔
وہ مرد جو ذرا نازک مزاج کے حامل ہوتے ہیں ۔ لڑکی ٹائپ ہوتے ہیں ۔
وہ زنانہ لباس ، میک ایپ کرکے تھیٹر میں آئے ۔ ایکٹنگ ہوئی ادکاری ہوئی ۔
ابتدا لوگوں نے منہ بنائے ۔ باتیں بنائیں ۔ مگر اس میں دلچسپی کا خاصا سامان تھا ۔
لوگوں کی زبانیں بند ہوئیں ، عادی ہونے لگے ۔
پھر اس میدان میں ہیجڑا اترا ۔
پھر عورت اتری
اوور بے دھڑک کودی !
اور آج کون سی لڑکی ہے جس کی خواہش ’’ایک سٹار‘‘ بننے کی نہ ہو ؟؟؟
واللہ !
انگریز نے کسی کو گن پوائینٹ پہ نہیں کہا تھا کہ حجاب اتارو !
تاریخ گواہ ہے ۔
اس نے کبھی نہیں کہا کہ سلیولیس پہنو !
ہاں اس نے نمونہ دکھایا !
اور ہم نے کھلے دل سے اسے قبول کیا ۔ باعث فخر جانا !
( استفادہ از حامد کمال الدین)
ہاں انگریز نے تب سروے کیا تھا ۔
مسلم معاشرہ میں بدکاری کے کیسز ’’نہ ہونے کے برابر‘‘ تھے ۔
جھوٹی گواہی دینے والا کوئی ملتا ہی نہ تھا ۔
۹۸ فیصد خواندگی تھی ۔ کیونکہ مسلمان اپنے بچوں کو قرآن ضرور پڑھاتے تھے ۔
اسے یہ کب گوارا تھا ۔
اسے معلوم تھی اپنے استاد کی تحقیق !
جس نے کہا تھا مسلمان کا ایمان لینا ہے ، تو اس کے معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دو !
ہاں انہوں نے سید المرسلین کے فرمان مبارک کو بخوبی جان لیا تھا ۔
کہ وہ فرماگئے تھے ۔
*إذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْت*" . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
*’’ جب تم میں حیانہ رہے تو جو جی چاھے کرو ‘‘*
گویا ایک انسان جس میں حیا نہیں اس سے ہر گئے گذرے کام کی کامل توقع کی جاسکتی ہے ۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ وہ ہر حد سے گذر سکتا ہے ۔ وہ ہر برائی کی آخری حدود کو پہنچ سکتا ہے
۔ وہ ہر بدتمیزی ہر فراڈ ہر قسم کا کام کرسکتا ہے ۔
جو کہ آج ۔۔۔ ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے ۔
سود بدکاری ،دھوکہ دہی شرک وبدعات کا بازار گرم !!!
سچ فرمایا تھا نا رسول ﷺ نے ۔
اور انگریز نے بھی کتنی عرق ریزی سے کام لیا تھا ۔
وہ الگ بات ہے وہ اس حقیقت کو فراموش کر چکا ہے !
*’’ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی‘‘*
آگے آیئے !
مجھے وہ دن نہیں بھولتا ، میں یونیورسٹی میں پوائینٹ کی منتظر تھی ۔
میرے سامنے ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی آکر رکی ۔
اندر سے لڑکی نکلی ۔ دوپٹہ تو نہ تھا ، چست لباس تھا ۔ سیاہ عینک آنکھوں پہ ٹکائے وہ جس انداز سے آگے بڑھی ۔
مجھے لگا ، رات بالکل یہی منظر دیکھ کہ سوئی ہوگی ۔ ۔
صبح ہوبہو وہی انداز اختیار کیے ہوئے ہے ۔
آپ کو کتنے ہی لڑکے لڑکیاں نظر آئیں گی ۔
آپ انہیں دیکھ لیں یا ڈرامائی سین دیکھ لیں ۔ پھر مجھے فرق بتلائیں ۔
جیسی بدتمیزی لڑکی ، لڑکے سے کرکے ، ایک جھٹکے سے آگے بڑھتی ہے ۔ ایک زناٹے دار طمانچہ اس کے چہرے پہ رسید کرتی ہے ۔
لڑکا عینک اتار کر ، معصوم و مغموم صورت بنا کہ اسے جاتا ہوا دیکھتا ہے ، یا اس کے پیچھے لپکتا ہے ۔
بعینہ یہی چیز آپ کو اصلا دکھائی دے گی ۔
آپ رات کو جو چیز سکرین پہ دیکھ کہ آتے ہیں ، صبح آکر یونیورسٹی کالجز میں اصلا دیکھ سکتے ہیں ۔۔
آگے آیئے ۔
نتیجہ کیا نکلا ۔
سکرین آئی ، بے حیائی آئی ۔
سکرین نہ تھی ، بے حیائی نہ تھی ۔ جب بے حیائی نہ تھی تو باقی جرائم بھی نہ تھے ۔ پاکیزہ معاشرہ تھا ۔
مسلم غالب تھا ۔
*فیا عباد اللہ*
*یا اماءاللہ !*
میرے اور آپ کے نبی نے کہا تھا !
*ان لکل دین خلقا وخلق الاسلام الحیاء*
(سلسہ الصحیحہ ۹۴۰)
*بے شک ہر دین کی ایک (غالب ، پرامننٹ) خصلت ہوتی ہے* ۔
اور اسلام کی خصلت حیا ہے ۔
کیا ہم اسلام والے ہیں ؟
کیا ہم محمد عربی ﷺ والے ہیں ؟
کیا ہم اسلام کی ’’پاکباز بیٹیاں ‘‘ ہیں ؟
تو پھر ہماری نگاہیں غلیظ مناظر کیوں دیکھتی ہیں ؟
ہمارے کان موسیقی کی تاروں سے کیوں مانوس ہوچکے ہیں ؟
اسلام کی بیٹیوں کے جسم موسیقی کی دھن پہ کیوں تھرتھراتے ہیں ؟
ہر شادی پہ، ہر دعوت پہ، وہ موج مستی کے نام پر کیا کرنے لگتی ہیں ۔
اللہ کی زمین پر!
اللہ کے آسمان تلے وہ کیا کرتی ہیں ؟
آسان سا حل ہے ۔
ڈرامے فلمیں ( جن میں آنکھیں آلودہ ، کان آلودہ دل آلودہ ہوتے ہیں ) کا مکمل بائیکاٹ کردیں ۔
کارٹونز سے اپنے بچوں کو دور کردیجئے ۔
جو اثر فلموں کا جوانوں پہ ہے ، یقین جانئے وہ اثر کارٹونز کا بچوں پہ ہے ۔
نظریں نہ چرائیں ، سیریس لیں ۔ سنجیدگی اختیار کر لیجئے ۔
حیا والے بچے بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ۔ ان کی حیا ان کے ساتھ ساری زندگی ساتھ رہے گی ان شاءاللہ ۔
حیا کی ڈوز ابھی سے دیں ۔
ابھی کوشش کریں ۔
وگرنہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں ۔اور انٹرنیٹ کی دنیا میں پلنے والے یہ بچے پھر وہ کچھ دیکھتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے ۔
۔
*تھیٹر کی کہانی*
ہمیں آپ کی جانب سے چند خواتین درکار ہیں ۔
ہم آپ کو اداکاری کے لیے تھیڑ میں بلانا چاھتے ہیں ۔
انگریز نے خاصی پلاننگ کے بعد آخر برصغیر کی چند مسلم خواتین سے بات کی ۔
توقع کے عین مطابق صاف انکار برامد ہوا ۔
وہ گئے بازارِحسن ! یہاں امید تھی ۔
ہمیں کچھ خواتین چاھیں ۔
فقط
ادا کاری کرنا ہوگی ۔
بازارِحسن کی خواتین کانوں کو ہاتھ لگانے لگیں ۔
’’جو کچھ کرتے ہیں ، مجبورا کرتے ہیں ، اور گھروں کو بند کرکے کرکے کرتے ہیں ۔
کھلے عام ’’مردوں ‘‘ کے سامنے ایکٹنگ ؟؟ اداکاری ؟؟؟
بخدا نہیں !
یہاں سے انکار ہوا !
انگریز بہادر نے ہمت نہ ہاری ۔ گیا ہندو خواتین کے پاس !
کام کی نوعیت بتلائی گئی ۔
فقط اداکاری کرنی ہے ۔
وہ لگیں رام رام کرنے !
مرد کے سامنے عورت ذات یوں کھلے عام آئے ، کھلے عام ہنسے کھیلے بولے ؟
رام رام ! توبہ توبہ ۔
انگریز نے ہمت نہ ہاری !
ہیجڑے ابھی باقی تھے ۔
ان کے سامنے درخواست پیش کی ۔
انہوں نے بھی یکسر انکار کردیا ۔
انگریز اس کام کے اس قدر پیچھے کیوں پڑا تھا ۔
یقینا وہ ایک خطرناک مقصد اپنے دماغ میں رکھتا تھا ۔
اس نے اپنے ہی چند مرد پکڑے ۔
وہ مرد جو ذرا نازک مزاج کے حامل ہوتے ہیں ۔ لڑکی ٹائپ ہوتے ہیں ۔
وہ زنانہ لباس ، میک ایپ کرکے تھیٹر میں آئے ۔ ایکٹنگ ہوئی ادکاری ہوئی ۔
ابتدا لوگوں نے منہ بنائے ۔ باتیں بنائیں ۔ مگر اس میں دلچسپی کا خاصا سامان تھا ۔
لوگوں کی زبانیں بند ہوئیں ، عادی ہونے لگے ۔
پھر اس میدان میں ہیجڑا اترا ۔
پھر عورت اتری
اوور بے دھڑک کودی !
اور آج کون سی لڑکی ہے جس کی خواہش ’’ایک سٹار‘‘ بننے کی نہ ہو ؟؟؟
واللہ !
انگریز نے کسی کو گن پوائینٹ پہ نہیں کہا تھا کہ حجاب اتارو !
تاریخ گواہ ہے ۔
اس نے کبھی نہیں کہا کہ سلیولیس پہنو !
ہاں اس نے نمونہ دکھایا !
اور ہم نے کھلے دل سے اسے قبول کیا ۔ باعث فخر جانا !
( استفادہ از حامد کمال الدین)
ہاں انگریز نے تب سروے کیا تھا ۔
مسلم معاشرہ میں بدکاری کے کیسز ’’نہ ہونے کے برابر‘‘ تھے ۔
جھوٹی گواہی دینے والا کوئی ملتا ہی نہ تھا ۔
۹۸ فیصد خواندگی تھی ۔ کیونکہ مسلمان اپنے بچوں کو قرآن ضرور پڑھاتے تھے ۔
اسے یہ کب گوارا تھا ۔
اسے معلوم تھی اپنے استاد کی تحقیق !
جس نے کہا تھا مسلمان کا ایمان لینا ہے ، تو اس کے معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دو !
ہاں انہوں نے سید المرسلین کے فرمان مبارک کو بخوبی جان لیا تھا ۔
کہ وہ فرماگئے تھے ۔
*إذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْت*" . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
*’’ جب تم میں حیانہ رہے تو جو جی چاھے کرو ‘‘*
گویا ایک انسان جس میں حیا نہیں اس سے ہر گئے گذرے کام کی کامل توقع کی جاسکتی ہے ۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ وہ ہر حد سے گذر سکتا ہے ۔ وہ ہر برائی کی آخری حدود کو پہنچ سکتا ہے
۔ وہ ہر بدتمیزی ہر فراڈ ہر قسم کا کام کرسکتا ہے ۔
جو کہ آج ۔۔۔ ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے ۔
سود بدکاری ،دھوکہ دہی شرک وبدعات کا بازار گرم !!!
سچ فرمایا تھا نا رسول ﷺ نے ۔
اور انگریز نے بھی کتنی عرق ریزی سے کام لیا تھا ۔
وہ الگ بات ہے وہ اس حقیقت کو فراموش کر چکا ہے !
*’’ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی‘‘*
آگے آیئے !
مجھے وہ دن نہیں بھولتا ، میں یونیورسٹی میں پوائینٹ کی منتظر تھی ۔
میرے سامنے ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی آکر رکی ۔
اندر سے لڑکی نکلی ۔ دوپٹہ تو نہ تھا ، چست لباس تھا ۔ سیاہ عینک آنکھوں پہ ٹکائے وہ جس انداز سے آگے بڑھی ۔
مجھے لگا ، رات بالکل یہی منظر دیکھ کہ سوئی ہوگی ۔ ۔
صبح ہوبہو وہی انداز اختیار کیے ہوئے ہے ۔
آپ کو کتنے ہی لڑکے لڑکیاں نظر آئیں گی ۔
آپ انہیں دیکھ لیں یا ڈرامائی سین دیکھ لیں ۔ پھر مجھے فرق بتلائیں ۔
جیسی بدتمیزی لڑکی ، لڑکے سے کرکے ، ایک جھٹکے سے آگے بڑھتی ہے ۔ ایک زناٹے دار طمانچہ اس کے چہرے پہ رسید کرتی ہے ۔
لڑکا عینک اتار کر ، معصوم و مغموم صورت بنا کہ اسے جاتا ہوا دیکھتا ہے ، یا اس کے پیچھے لپکتا ہے ۔
بعینہ یہی چیز آپ کو اصلا دکھائی دے گی ۔
آپ رات کو جو چیز سکرین پہ دیکھ کہ آتے ہیں ، صبح آکر یونیورسٹی کالجز میں اصلا دیکھ سکتے ہیں ۔۔
آگے آیئے ۔
نتیجہ کیا نکلا ۔
سکرین آئی ، بے حیائی آئی ۔
سکرین نہ تھی ، بے حیائی نہ تھی ۔ جب بے حیائی نہ تھی تو باقی جرائم بھی نہ تھے ۔ پاکیزہ معاشرہ تھا ۔
مسلم غالب تھا ۔
*فیا عباد اللہ*
*یا اماءاللہ !*
میرے اور آپ کے نبی نے کہا تھا !
*ان لکل دین خلقا وخلق الاسلام الحیاء*
(سلسہ الصحیحہ ۹۴۰)
*بے شک ہر دین کی ایک (غالب ، پرامننٹ) خصلت ہوتی ہے* ۔
اور اسلام کی خصلت حیا ہے ۔
کیا ہم اسلام والے ہیں ؟
کیا ہم محمد عربی ﷺ والے ہیں ؟
کیا ہم اسلام کی ’’پاکباز بیٹیاں ‘‘ ہیں ؟
تو پھر ہماری نگاہیں غلیظ مناظر کیوں دیکھتی ہیں ؟
ہمارے کان موسیقی کی تاروں سے کیوں مانوس ہوچکے ہیں ؟
اسلام کی بیٹیوں کے جسم موسیقی کی دھن پہ کیوں تھرتھراتے ہیں ؟
ہر شادی پہ، ہر دعوت پہ، وہ موج مستی کے نام پر کیا کرنے لگتی ہیں ۔
اللہ کی زمین پر!
اللہ کے آسمان تلے وہ کیا کرتی ہیں ؟
آسان سا حل ہے ۔
ڈرامے فلمیں ( جن میں آنکھیں آلودہ ، کان آلودہ دل آلودہ ہوتے ہیں ) کا مکمل بائیکاٹ کردیں ۔
کارٹونز سے اپنے بچوں کو دور کردیجئے ۔
جو اثر فلموں کا جوانوں پہ ہے ، یقین جانئے وہ اثر کارٹونز کا بچوں پہ ہے ۔
نظریں نہ چرائیں ، سیریس لیں ۔ سنجیدگی اختیار کر لیجئے ۔
حیا والے بچے بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ۔ ان کی حیا ان کے ساتھ ساری زندگی ساتھ رہے گی ان شاءاللہ ۔
حیا کی ڈوز ابھی سے دیں ۔
ابھی کوشش کریں ۔
وگرنہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں ۔اور انٹرنیٹ کی دنیا میں پلنے والے یہ بچے پھر وہ کچھ دیکھتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے ۔
*تھیٹر کی کہانی*
Reviewed by Hamza Ali
on
November 28, 2018
Rating:
No comments: