Facebook

*تھیٹر کی کہانی*

🎼🎲🎼🎲🎼🎲🎼🎲🎼🎲🎼
۔

             *تھیٹر کی کہانی*

ہمیں آپ کی جانب سے چند خواتین درکار ہیں ۔

ہم آپ کو اداکاری کے لیے تھیڑ میں بلانا چاھتے ہیں ۔

انگریز نے خاصی  پلاننگ کے بعد  آخر برصغیر کی چند مسلم خواتین سے بات کی ۔

توقع کے عین مطابق صاف انکار برامد ہوا ۔

وہ گئے بازارِحسن ! یہاں امید تھی ۔

ہمیں کچھ خواتین چاھیں ۔

فقط 

ادا کاری کرنا ہوگی ۔

بازارِحسن کی خواتین کانوں کو ہاتھ لگانے لگیں ۔

’’جو کچھ کرتے ہیں ، مجبورا کرتے ہیں ، اور گھروں کو بند کرکے کرکے کرتے ہیں ۔

کھلے عام ’’مردوں ‘‘ کے سامنے ایکٹنگ ؟؟ اداکاری ؟؟؟

بخدا نہیں !

یہاں سے انکار ہوا !

انگریز بہادر نے ہمت نہ ہاری ۔  گیا ہندو خواتین کے پاس !

کام کی نوعیت بتلائی گئی ۔

فقط اداکاری کرنی ہے  ۔

وہ لگیں رام رام کرنے !

مرد  کے سامنے عورت ذات یوں کھلے عام آئے ، کھلے عام ہنسے کھیلے بولے ؟

رام رام ! توبہ توبہ ۔

انگریز نے ہمت نہ ہاری !

ہیجڑے ابھی باقی تھے ۔

ان کے سامنے درخواست پیش کی ۔

انہوں نے بھی  یکسر انکار کردیا ۔

انگریز اس کام کے  اس قدر پیچھے کیوں پڑا تھا ۔

یقینا وہ ایک خطرناک مقصد اپنے دماغ میں رکھتا تھا ۔

اس نے اپنے ہی چند مرد پکڑے ۔

وہ مرد جو ذرا نازک مزاج کے حامل  ہوتے ہیں ۔ لڑکی ٹائپ ہوتے ہیں ۔

وہ زنانہ لباس ، میک ایپ کرکے  تھیٹر میں آئے ۔ ایکٹنگ ہوئی ادکاری ہوئی ۔

ابتدا لوگوں نے منہ بنائے ۔ باتیں بنائیں ۔ مگر اس میں دلچسپی کا خاصا سامان تھا  ۔

لوگوں کی زبانیں بند ہوئیں ، عادی ہونے لگے ۔

پھر اس میدان میں ہیجڑا اترا ۔

پھر عورت اتری

اوور بے دھڑک کودی !

اور آج کون سی لڑکی ہے جس کی خواہش ’’ایک سٹار‘‘ بننے کی نہ ہو ؟؟؟

واللہ !

انگریز نے کسی کو گن پوائینٹ پہ نہیں کہا تھا کہ حجاب اتارو !

تاریخ گواہ ہے ۔

اس نے کبھی نہیں کہا کہ سلیولیس پہنو !

ہاں اس نے نمونہ دکھایا !

اور ہم نے کھلے دل سے اسے قبول کیا ۔ باعث فخر جانا !

( استفادہ از حامد کمال الدین)

ہاں انگریز نے تب سروے کیا تھا ۔

مسلم معاشرہ میں بدکاری کے کیسز ’’نہ ہونے کے برابر‘‘ تھے ۔

جھوٹی گواہی دینے والا کوئی ملتا ہی نہ تھا ۔

۹۸ فیصد خواندگی تھی ۔ کیونکہ مسلمان اپنے بچوں کو قرآن ضرور پڑھاتے تھے ۔

اسے یہ کب گوارا تھا ۔

اسے معلوم تھی اپنے استاد کی تحقیق !

جس نے کہا تھا مسلمان کا ایمان لینا ہے ، تو اس کے معاشرے میں بے حیائی کو فروغ دو !

ہاں انہوں نے سید المرسلین کے  فرمان مبارک کو بخوبی جان لیا تھا ۔

کہ وہ فرماگئے تھے ۔

*إذَا لَمْ تَسْتَحِ فَاصْنَعْ مَا شِئْت*" . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
*’’ جب تم میں حیانہ رہے تو جو جی چاھے کرو ‘‘*

گویا ایک انسان جس میں حیا نہیں اس سے ہر گئے گذرے کام کی کامل توقع کی جاسکتی ہے ۔ وہ کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ وہ ہر حد سے گذر سکتا ہے ۔ وہ ہر برائی کی آخری حدود کو  پہنچ سکتا ہے

۔ وہ ہر بدتمیزی ہر فراڈ ہر قسم کا کام کرسکتا ہے ۔

جو کہ آج ۔۔۔ ہمارے معاشرے میں ہورہا ہے ۔

سود بدکاری ،دھوکہ دہی شرک وبدعات کا بازار گرم !!!

سچ فرمایا تھا نا رسول ﷺ نے ۔

اور انگریز نے بھی کتنی عرق ریزی سے کام لیا تھا ۔

وہ الگ بات ہے وہ اس حقیقت کو فراموش کر چکا ہے !

*’’ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی‘‘*

آگے آیئے !

مجھے وہ دن نہیں بھولتا ، میں یونیورسٹی میں  پوائینٹ کی منتظر تھی ۔

میرے سامنے ایک سیاہ شیشوں والی گاڑی آکر رکی ۔

اندر سے لڑکی نکلی ۔ دوپٹہ تو نہ تھا ، چست لباس تھا ۔ سیاہ عینک آنکھوں پہ ٹکائے وہ جس انداز سے آگے بڑھی  ۔

مجھے لگا ، رات بالکل یہی منظر دیکھ کہ سوئی ہوگی ۔  ۔

صبح ہوبہو وہی انداز اختیار کیے ہوئے ہے ۔

آپ کو کتنے ہی لڑکے لڑکیاں نظر آئیں گی ۔

آپ انہیں دیکھ لیں یا ڈرامائی سین دیکھ لیں ۔ پھر مجھے فرق بتلائیں ۔

جیسی بدتمیزی لڑکی ، لڑکے سے کرکے ، ایک جھٹکے سے آگے بڑھتی ہے ۔ ایک زناٹے دار طمانچہ اس کے چہرے پہ رسید کرتی ہے ۔ 

لڑکا عینک اتار کر ، معصوم و مغموم صورت بنا کہ اسے جاتا ہوا دیکھتا ہے ، یا اس کے پیچھے لپکتا ہے ۔

بعینہ یہی چیز آپ کو اصلا دکھائی دے گی ۔

آپ رات کو جو چیز سکرین پہ دیکھ کہ آتے ہیں ، صبح آکر یونیورسٹی کالجز میں اصلا دیکھ سکتے ہیں ۔۔

آگے آیئے ۔

نتیجہ کیا نکلا ۔

سکرین آئی ، بے حیائی آئی ۔

سکرین نہ تھی ، بے حیائی نہ تھی ۔ جب بے حیائی نہ تھی تو باقی جرائم بھی نہ تھے ۔ پاکیزہ معاشرہ تھا ۔

مسلم غالب تھا ۔

*فیا عباد اللہ*

*یا اماءاللہ !*

میرے اور آپ کے نبی نے کہا تھا !

*ان لکل دین خلقا وخلق الاسلام الحیاء*

(سلسہ الصحیحہ ۹۴۰)

*بے شک ہر دین کی ایک (غالب ، پرامننٹ) خصلت ہوتی ہے* ۔

اور اسلام کی خصلت حیا ہے ۔

کیا ہم اسلام والے ہیں ؟

کیا ہم محمد عربی ﷺ والے ہیں ؟

کیا ہم اسلام کی ’’پاکباز بیٹیاں ‘‘ ہیں ؟

تو پھر ہماری نگاہیں غلیظ  مناظر کیوں  دیکھتی ہیں ؟

ہمارے کان موسیقی کی تاروں سے کیوں مانوس ہوچکے ہیں ؟

اسلام کی بیٹیوں کے جسم موسیقی کی دھن پہ کیوں تھرتھراتے ہیں ؟

ہر شادی   پہ،  ہر دعوت پہ، وہ موج مستی کے نام پر کیا کرنے لگتی ہیں ۔

اللہ کی زمین پر!

اللہ کے آسمان تلے وہ کیا کرتی ہیں ؟

آسان سا حل ہے ۔

ڈرامے فلمیں ( جن میں آنکھیں آلودہ ، کان آلودہ دل آلودہ ہوتے ہیں ) کا مکمل بائیکاٹ کردیں ۔

کارٹونز سے اپنے بچوں کو دور کردیجئے ۔

جو اثر فلموں کا جوانوں پہ ہے ، یقین جانئے وہ اثر کارٹونز کا بچوں پہ ہے ۔

نظریں نہ چرائیں ، سیریس لیں ۔ سنجیدگی اختیار کر لیجئے ۔

حیا والے بچے بہت قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ۔ ان کی حیا ان کے ساتھ ساری زندگی ساتھ رہے گی ان شاءاللہ ۔

حیا کی ڈوز ابھی سے دیں ۔

ابھی کوشش کریں ۔

وگرنہ ہاتھوں سے نکل جاتے ہیں ۔اور انٹرنیٹ کی دنیا میں پلنے والے یہ بچے پھر وہ کچھ دیکھتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے ۔
*تھیٹر کی کہانی*     *تھیٹر کی کہانی* Reviewed by Hamza Ali on November 28, 2018 Rating: 5

No comments:

Powered by Blogger.